سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے بچوں کو انصاف کی فراہمی سے متعلق تقریب سے خطاب کیا گیا۔
جس میں اُن کی جانب سے کہا گیا کہ بچوں کے حقوق کا عدلیہ کو احساس ہے، بچے نہ صرف ہمارا مستقبل ہیں بلکہ ہمارا حال بھی ہیں، بچے کل کے لوگ نہیں آج کے افراد ہیں، میں ججز کو بتانا چاہتا ہوں کہ بچوں کے لیے انصاف کس قدر اہم ہے، عدالت میں بچہ پیش ہوتا ہے تو ان کو بات کا موقع نہیں دیا جاتا، ہم کیسز میں بچوں کے والدین کو سن لیتے ہیں، آئندہ بچہ عدالت میں پیش ہو تو بچے کی بات کو سنیں، مفاد عامہ کے مقدمات سے کافی بہتری آتی ہے،میں ہمیشہ کہتا ہوں عدالت آئیں، میں آئینی بنچ میں نہیں مگر میرے ساتھی آپ کو سنیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا بچوں کو بھی فیصلہ سازی کے عمل شامل کرنا چاہیے،بچوں کو آج سائبر بولانگ جیسے خطرات کا سامنا ہے، ملک میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا رہے، اسپیشل چائلڈ سے متعلق ہمارے پاس سہولیات موجود نہیں، بچیوں کو ونی کرنے جیسی رسومات آج تک موجود ہیں، اسکول میں بچوں کو مارنے پیٹنے کا رجحان آج بھی باقی ہے، جبری مذہب کی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے، ملک میں چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت ہے جہاں بچوں سے متعلقہ کیسز کے جلد فیصلے ہوں۔
انہوں نہیں مزید کہا کہ دیکھنا ہے ہمارا نظام انصاف بچوں کے لیے کیا کر رہا ہے، بچوں کو بھی آزادی رائے کا حق ہے، بچے ہمارے لیے ہم سے زیادہ اہم ہونے چاہئیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے بچہ عدالت آکر سارا دن بیٹھا رہے، بچے سے متعلق کیس کو فوری سنا جانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال مندوخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 11 تین کی تشریح کی ضرورت ہے، میں اب یہ تشریح کر نہیں سکتا لیکن آپ (جسٹس جمال مندوخیل) کر سکتے ہیں، معذرت چاہتا ہوں، مجھے یہ بار بار کہنا پڑ رہا ہے، مگر اب کیا کروں میں یہ تشریح کر نہیں سکتا۔