سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا اور وکلا ٹیم سے اہم گفتگو کی۔
جس میں انکا کہنا تھا کہ 26 نومبر کو آج چھ ہفتے ہو گئے ہیں ہمارے کئی لوگ ابھی تک گمشدہ ہیں ۔ یہ لوگ ڈی چوک اسلام آباد سے غائب کیے گئے ہیں کسی قبائلی علاقے سے نہیں۔ حکومت ان کو کسی عدالت میں پیش کر رہی ہے نہ ہی ان کو تلاش کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات اور مذاکرات کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے۔ ہم نے آج گمشدہ افراد کے معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جس کی سربراہی سینئیر وکیل قاضی انور کریں گے۔
اُنہوں نے کہا ہم پر زور مطالبہ کر رہے ہیں کہ 26 نومبر کو جو ہمارے لوگوں پر سیدھی گولیاں ماری گئیں ؛ 64 لوگوں کو زخمی اور 14 لوگوں کو شہید کیا گیا انکے قتل عام کی شفاف تحقیقات کی جائیں ۔ یہاں تحقیقات تو کیا ہونی ہیں الٹا انہی مظلوم افراد کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کوٹلی ستیاں سے ہمارے 17 سالہ کارکن انیس شہزاد ستی کو شہید کیا گیا ۔ پھر اسکے غمزدہ خاندان کو ہراساں کیا گیا کہ وہ اپنا کیس واپس لیں۔ یہی سب کچھ نو مئی کو بھی کیا گیا تھا ۔جب ہم پر ہی گولیاں چلائی گئی تھیں ہمارے 16 لوگوں کو شہید کیا گیا اور پھر پر امن نہتی عوام کو ہی دہشتگرد بنا دیا گیا ۔ انکے گھروں کا تقدس پامال کیا گیا ؛ بے قصور افراد کو جیلوں میں ڈال کر انکی زندگیاں برباد کی گئیں۔ میرے گھر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ۔ 9 مئی اور 26 نومبر پر شفاف جوڈیشل کمیشن بننا ناگزیر ہے۔ میں اس واقعے کو تب تک بھولنے نہیں دوں گا جب تک مظلوموں کو انصاف نہ مل جائے۔
بانی تحریک انصاف نے کہا کہ مطالبات جائز اور معقول ہیں لیکن حکومت ان پر سنجیدہ نہیں ۔ مجھے میری جماعت کے افرد سے ملوایا نہیں جاتا جو کہ میرا قانونی حق ہے ۔ اگر حکومت نے اگلی نشست میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہ کی تو ہم مذاکرات کے عمل کو آگے نہیں بڑھائیں گے، بشریٰ بی بی کے خلاف کمپئین کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں ۔ بشریٰ بی بی جو کر رہی ہیں وہ میری ذات کے لیے کر رہی ہیں- سنجگانی جیسے شوشے چھوڑ کر اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جاتی ہے ۔ ڈی چوک میں کارکنان کے ہمراہ پہنچ جانا بشری بی بی کی کامیابی ہے جس پر انکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو تلقین کرتا ہوں کہ ہمارے مسنگ پرسنز کا معاملہ ہر سطح پر اٹھائیں ۔
عمران خان کے مطابق پاکستان میں آمریت کا دس سالہ پلان لایا گیا تھا جس میں سے دو سال گزر چکے ہیں یہاں جو جج یا پولیس والا ظلم کا حصہ بنتا ہے اسکو ترقی دے دی جاتی ہے ہمایوں دلاور نے غیر قانونی فیصلہ دیا تو اسکو ترقی دے دی گئی دوسری جانب راولپنڈی ؛ سرگودھا کے ججز نے انصاف پر مبنی فیصلے دیے تو انکو گھر بھیج دیا گیا۔ ایسا کر کے ملک میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو قتل کر دیا گیا ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا میں موجود اس فسطائی نظام کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ معاشی خوشحالی کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے اور سرمایہ کاری ملک میں اداروں کے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کئے بغیر ممکن نہیں۔ ملک میں بڑھتی دہشتگردی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اور افسوسناک امر تو یہ کہ اس کے تدارک کے ذمہ داران کی ساری توانائیاں اور وسائل ہماری جماعت کو دیوار سے لگانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنی ذاتی اناؤں اور وقتی مفادات سے ہٹ کر ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی کا سوچا جائے۔
یہاں جو جج یا پولیس والا ظلم کا حصہ بنتا ہے اسکو ترقی دے دی جاتی ہے، عمران خان
